Pages

Subscribe:

Tuesday 18 September 2012

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ


امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ
امام ابوحنیفہ اسلامی عالم تھے جن کی وجہ شہرت احادیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اکٹھا اور تدوین دینے کی وجہ سے ہے۔ وہ لوگ جو اس مجموعہ حدیث کو ہی کامل مانتے ہیں حنفی کہلاتے ہیں اور ابوحنیفہ اسطرح اس فقہ حنفی کے بانی امام سمجھے جاتے ہیں۔
ابتدائی زندگی
آپ کا نام نعمان بن ثابت بن زوطا اور کنیت ابوحنیفہ تھی۔ بالعموم امام اعظم کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔ آپ تمام ائمہ کے مقابلے میں سب سے بڑے مقام و مرتبے پر فائز ہیں۔ اسلامی فقہ میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا پایہ بہت بلند ہے۔ آپ نسلاً عجمی تھے۔ آپ کی پیدائش کوفہ میں 80ہجری بمطابق 699ء میں ہوئی سن وفات 150ہجری ہے۔ ابتدائی ذوق والد ماجد کے تتبع میں تجارت تھا۔ لیکن اللہ نے ان سے دین کی خدمت کا کام لینا تھا، لٰہذا تجارت کا شغل اختیار کرنے سے پہلے آپ اپنی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ نے بیس سال کی عمر میں اعلٰی علوم کی تحصیل کی ابتدا کی۔
آپ نہایت ذہین اور قوی حافظہ کے مالک تھے۔ آپ کا زہد و تقویٰ فہم و فراست اور حکمت و دانائی بہت مشہور تھی۔ آپ نے اپنی عمر مبارک میں 7 ہزار مرتبہ ختم قرآن کیا۔ 45 سال تک ایک وضو سے پانچوں نمازیں پڑھیں، رات کے دو نفلوں میں پورا قرآن حکیم ختم کرنے والے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ دن کو علم پھیلاتے اور رات کو عبادت کرتے، ان کی حیات مبارکہ کے لاتعداد گوشے ہیں۔ ائمہ حدیث آپ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک طرف آپ علم کے سمندر ہیں اور دوسری طرف زہد و تقویٰ اور طہارت کے پہاڑ ہیں۔
آپ کے سفر
امام اعظم نے علم حدیث کے حصول کے لیے تین مقامات کا بطورِ خاص سفر کیا۔ آپ نے علم حدیث سب سے پہلے کوفہ میں حاصل کیا کیونکہ آپ کوفہ کے رہنے والے تھے اور کوفہ علم حدیث کا بہت بڑا مرکز تھا۔ گویا آپ علم حدیث کے گھر میں پیدا ہوئے، وہیں پڑھا، کوفہ کے سب سے بڑے علم کے وارث امام اعظم خود بنے۔ دوسرا مقام حرمین شریفین کا تھا۔ جہاں سے آپ نے احادیث اخذ کیں اور تیسرا مقام بصرہ تھا۔ امام ابو حنیفہ نے تقریبًا 4 ہزار اساتذہ سے علم حاصل کیا۔
اساتذہ
علم الادب، علم الانساب اور علم الکلام کی تحصیل کے بعد علم فقہ کے لیے امام حماد کے حلقہ درس سے فیض یاب ہوئے۔ آپ علم فقيه كےعالم هين .آپ کے شیوخ و اساتذہ کی تعداد چار ہزار بتائی جاتی ہے۔ جن سے وہ وقتاً فوقتاً اکتساب علم کرتے رہے۔ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق کی شاگردی کا فخر بھی انہیں حاصل هے.
درس و تدریس
آپ نے تحصیل علم کے بعد جب درس و تدریس کے سلسلہ کا آغاز کیا تو آپ کے حلقہ درس میں زبردست اژدھام ہوتا اور حاضرین میں اکثریت اد دور کے جید صاحبان علم کی ہوتی۔ علامہ کروری نے آپ کے خاص تلامذہ میں آٹھ سو فقہا محدثین اور صوفیا و مشائخ شمار کیا ہے۔ یہ ان ہزار ہا انسانوں کے علاوہ تھے۔ جو ان کے حلقہ درس میں شریک ہوتے رہتے تھے۔ آپ نے فقہ حنفیہ کی صورت میں اسلام کی قانونی و دستوری جامعیت کی لاجواب شہادت مہیا کی اور اس مدت میں جو مسائل مدون کیے ان کی تعداد بارہ لاکھ ستر ہزار سے زائد ہے۔ آپ کی تالیف پر اجماع ہے۔ اور صحابہ سے نقل روایت بھی ثابت ہے۔ آپ شریعت کے ستون تھے۔
مورخ خطیب بغدادی نے امام کے پوتے اسماعیل سے روایت کیا ہے کہ ’’میں اسماعیل بن حماد بن نعمان بن ثابت بن مرزبان ہوں ہم لوگ نسلاً فارس سے ہیں۔‘‘ امام صاحب کے دادا ثابت بچپن میں حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے انہوں نے ان کے خاندان کے حق میں دعائے خیر کی تھی۔ ’’ہمیں کو امید ہے۔ وہ دعا بے اثر نہیں رہی۔‘‘ تجارت ان کا ذریعہ معاش تھا۔ تجارت سے ہی رزق حلال کماتے دولت کی کمی نہ تھی۔ لیکن ان کی دولت و ثروت کا فائدہ طلبا اور حاجت مندوں ہی کو پہنچتا۔ فروخت کیے جانے والے کپڑے کے محاسن اور عیوب آپ برابر بیان کرتے اور خرابی کو کبھی نہ چھپاتے اپنے شاگردوں کی اکثر مالی امداد کرتے۔
تلامذہ
حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کے ایک ہزار کے قریب شاگرد تھے جن میں چالیس افراد بہت ہی جلیل المرتبت تھے اور وہ درجۂ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے۔ وہ آپ کے مشیرِ خاص بھی تھے۔ ان میں سے چند کے نام یہ ہیں
امام ابو یوسف رحمۃ اﷲ علیہ
امام محمد بن حسن شیبانی رحمۃ اﷲ علیہ
امام حماد بن ابی حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ
امام زفر بن ہذیل رحمۃ اﷲ علیہ
امام عبد اﷲ بن مبارک رحمۃ اﷲ علیہ
امام وکیع بن جراح رحمۃ اﷲ علیہ
امام داؤد بن نصیررحمۃ اﷲ علیہ
علاوہ ازیں قرآن حکیم کے بعد صحیح ترین کتاب صحیح بخاری کے مؤلف امام محمد بن اسماعیل بخاری اور دیگر بڑے بڑے محدثین کرام رحمہم اﷲ آپ کے شاگردوں کے شاگرد تھے۔
اہم تصانیف
آپ کی چند مشہور کتب درج ذیل ہیں
الفقه الأکبر
الفقه الأبسط
العالم والمتعلم
رسالة الإمام أبي حنيفة إلی عثمان البتی
وصية الامام أبي حنيفة
المقصود فی علم التصریف کتاب الوصیۃ لجمیع الامۃ الوصیۃ لعثمان السبتی کتاب الوصیۃ لابی یوسف الوصیۃ لاصحابہ الکبار الرسالہ الی نوح بن مریم
اور ان کی احادیث میں تصانیف کی تعداد 27کے قریب ہیں
فقہ حنفی
امام اعظم اپنا طریق اجتہاد و استنباط یوں بیان کرتے ہیں
’’میں سب سے پہلے کسی مسئلے کا حکم کتاب اﷲ سے اخذ کرتا ہوں، پھر اگر وہاں وہ مسئلہ نہ پاؤں تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے لیتا ہوں، جب وہاں بھی نہ پاؤں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اقوال میں سے کسی کا قول مان لیتا ہوں اور ان کا قول چھوڑ کر دوسروں کا قول نہیں لیتا اور جب معاملہ ابراہیم شعبی، ابن سیرین اور عطاء پر آجائے تو یہ لوگ بھی مجتہد تھے اور اس وقت میں بھی ان لوگوں کی طرح اجتہاد کرتا ہوں۔‘‘
آپ کے اجتہادی مسائل تقریبًا بارہ سو سال سے تمام اسلامی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لیے بڑی بڑی عظیم اسلامی سلطنتوں میں آپ ہی کے مسائل، قانون سلطنت تھے اور آج بھی اسلامی دنیا کا بیشتر حصہ آپ ہی کے فقہی مذہب کا پیرو کار ہے۔
فقہ حنفی کی اشاعت و خدمت سب سے زیادہ ان کے شاگردوں قاضی ابویوسف اور امام محمد بن حسن شیبانی نے کی۔ قاضی ابو یوسف کو ہارون نے مملکت کا قاضی القضاۃ بنا دیا تھا۔ اس لیے ان کی وجہ سے فقہ حنفی کے پیروکاروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
فقہ حنفی کی تدوین و ترویج
امام ابوحنیفہ اور ان کے شاگردوں امام قاضی ابو یوسف اور امام محمد بن الحسن الشیبانی نے حنفی فقہ کی باضابطہ تدوین کی۔ قاضی ابو یوسف کو ہارون نے مملکت کا قاضی القضاۃ بنا دیا تھا۔ اس لیے ان کی وجہ سے فقہ حنفی کے پیروکاروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
آپ کے اجتہادی مسائل تقریبًا بارہ سو سال سے تمام اسلامی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لئے بڑی بڑی عظیم اسلامی سلطنتوں میں آپ ہی کے مسائل، قانون سلطنت تھے اور آج بھی اسلامی دنیا کا بیشتر حصہ آپ ہی کے فقہی مذہب کا پیرو کار ہے۔
عباسی خلفا کے عہد میں سرکاری فقہ حنفی تھی۔ یہ فقہ مشرقی ملکوں بالخصوص غیر عربوں میں زیادہ مقبول ہوئی۔ عثمانی ترک بھی حنفی تھے۔ بخارا، خراسان، اور بغداد ان کے خاص مرکز تھے۔
آج کے دور میں
اس وقت بھی پاکستان، بھارت، افغانستان، چینی ترکستان، وسطی ایشیا اور ترکی وغیرہ میں مسلمانوں کی غالب اکثریت حنفی فقہ پر کاربند ہے۔
مکمل تحریر اور تبصرے >>

Sunday 1 July 2012

فضائل و اسماء سورۃ فاتح Fazayl wa Asma Surah Faitha


فضائل سُوْرَۃُ الْفَاتِحَۃ میں حدیث مبارک

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَام عَلَى أَشْرَفِ الْآنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ وَعَلَی آلٰہِ وَاَصْحَابِہِ الْطَاھِرِیْنَ
اَللّٰہُمَ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنِیْ اِتّـِبَاعَہٗ ۔ اَللّٰہُمَ اَرِنِی الْبَاطِلَ بَاطِلًاوَّارْزُقْنِیْ اِجْتِنَابَہٗ
اے اللہ ہمیں حق کی حقانیت  دکھا اور اس کی تابعدار نصیب فرما ۔اے اللہ ہمیں باطل کا بطلان دکھا اور اس سے اجتناب  کی توفیق عطافرما۔آمین
حَدَّثَنَا  قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ الْعَلَائِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَلَی أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أُبَيُّ وَهُوَ يُصَلِّي فَالْتَفَتَ أُبَيُّ وَلَمْ يُجِبْهُ وَصَلَّی أُبَيُّ فَخَفَّفَ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْکَ السَّلَامُ مَا مَنَعَکَ يَا أُبَيُّ أَنْ تُجِيبَنِي إِذْ دَعَوْتُکَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي کُنْتُ فِي الصَّلَاةِ قَالَ أَفَلَمْ تَجِدْ فِيمَا أَوْحَی اللَّهُ إِلَيَّ أَنْ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاکُمْ لِمَا يُحْيِيکُمْ قَالَ بَلَی وَلَا أَعُودُ إِنْ شَائَ اللَّهُ قَالَ أَتُحِبُّ أَنْ أُعَلِّمَکَ سُورَةً لَمْ يَنْزِلْ فِي التَّوْرَاةِ وَلَا فِي الْإِنْجِيلِ وَلَا فِي الزَّبُورِ وَلَا فِي الْفُرْقَانِ مِثْلُهَا قَالَ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَيْفَ تَقْرَأُ فِي الصَّلَاةِ قَالَ فَقَرَأَ أُمَّ الْقُرْآنِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا أُنْزِلَتْ فِي التَّوْرَاةِ وَلَا فِي الْإِنْجِيلِ وَلَا فِي الزَّبُورِ وَلَا فِي الْفُرْقَانِ مِثْلُهَا وَإِنَّهَا سَبْعٌ مِنْ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُعْطِيتُهُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ وَفِيهِ عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّی
 (جامع ترمذی باب فضائل القران حدیث 2673 )
قتیبة،عبدالعزیزبن محمد،علاءبن عبدالرحمن،عبدالرحمن،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ اُبی بن کعب کے پاس گئے اور انہیں پکارا اے اُبی ! وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیکھا اور جواب نہیں دیا۔ پھر انہوں نے نماز مختصر کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا السلام علیکم یا رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وعلیکم السلام اور پوچھا کہ تمہیں کس چیز نے مجھے جواب دینے سے روکا۔ عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے میرے اوپر نازل ہونے والی وحی میں یہ حکم نہیں پڑھا ". یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْ١ۚ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِهٖ وَ اَنَّهٗۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ۝۲۴ سُوْرَةُ الْاَنْفَال "
 (24. اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول کے بلانے پر حاضر ہو جب رسول تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی بخشے گی اور جان لو کہ اللہ کا حکم آدمی اور اس کے دلی ارادوں میں حائل ہو جاتا ہے اور یہ کہ تمہیں اسی کی طرف اٹھنا ہے)
عرض کیاجی ہاں۔ انشاءاللہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تم پسندکرتےہومیں تمہیں ایسی سورت بتاؤں جو نہ تورات میں اتری ہے نہ انجیل میں نہ زبور میں اور نہ ہی قرآن میں اس جیسی کوئی اورسورت ہے۔ عرض کیا جی ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نمازکس طرح پڑھتے ہو؟ انہوں نے ام القرآن (سورہ فاتحہ) پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ تورات، زبور، انجیل حتی کہ قرآن میں بھی اس جیسی کوئی سورت نازل نہ ہوئی۔ یہی سبع مثانی (سات دہرائی جانے والی آیتیں) ہے اور یہی قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس باب میں حضرت انس بن مالک سے بھی روایت ہے۔
حدیث ۲:
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ الْعَلَائِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ فَنِصْفُهَا لِي وَنِصْفُهَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ يَقْرَأُ الْعَبْدُ فَيَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ فَيَقُولُ اللَّهُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی حَمِدَنِي عَبْدِي فَيَقُولُ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فَيَقُولُ اللَّهُ أَثْنَی عَلَيَّ عَبْدِي فَيَقُولُ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ فَيَقُولُ مَجَّدَنِي عَبْدِي وَهَذَا لِي وَبَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ وَآخِرُ السُّورَةِ لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ يَقُولُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَی شُعْبَةُ وَإِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْعَلَائِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ وَرَوَی ابْنُ جُرَيْجٍ وَمَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ الْعَلَائِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي السَّائِبِ مَوْلَی هِشَامِ بْنِ زُهْرَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا وَرَوَی ابْنُ أَبِي أُوَيْسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ الْعَلَائِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي وَأَبُو السَّائِبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا                                                                                                                                                                                                                                                                  (جامع ترمذی باب تفسیر القران حدیث 2673 )

قتیبة، عبدالعزیز بن محمد، علاء بن عبدالرحمن، عبدالرحمن، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی فرماتا ہے میں نے اپنے بندے کی نماز کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک حصہ اپنے لیے اور ایک اس بندے کے لئے۔ پھر میرا بندہ جو مانگے وہ اس کے لیے ہے۔ چنانچہ جب بندہ کھڑا ہو کر (الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ) پڑھتا ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے میرے بندے نے میری حمد بیان کی۔ جب (الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ) پڑھتا ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے میرے بندے نے میری ثناء بیان کی جب (مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ) کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعظیم کی۔ اوریہ خالصتاًمیرےلئےہےاورمیرے،اورمیرےبندےکےدرمیان ہے۔ پھر(إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ) سے آخر تک میرے بندے کے لئے ہے اور اس کے لئے وہی ہے جو وہ یہ کہتے ہوئے مانگے (اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ)یہ حدیث حسن ہے۔ شعبہ، اسماعیل بن جعفر اور کئی راوی علاء بن عبدالرحمن سے وہ اپنے والد سے وہ ابوہریرہ رضی اللّہ تعالی عنہ سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسی کی مانند نقل کرتے ہیں۔ پھر ابن جریح اور مالک بن انس بھی علاء بن عبدالرحمن سے وہ ابوسائب سے (جو ہشام کے مولی) ہیں وہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسی کی مانند نقل کرتے ہں۔ نیز ابن ادریس اپنے والد سے اور وہ علاء بن عبدالرحمن سےنقل کرتےہیں کہ انہوں نےکہا کہ میرے والد اور ابوسائب نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اسی کی ہم معنی روایت کی ہے۔
اسماءِسُوْرَۃُ الْفَاتِحَۃ
اس سورت کے متعدد اسماءہیں  جن میں سےیہاں چنداسماء سند کے ساتھ بیان کررہا ہوں
۱۔ اَلْفَاتِحَۃُ : کھولنے والی، کیونکہ اس سے قرآن کریم کی ابتداء ہوتی ہے۔نماز کے دوران قرأت کی ابتداء بھی اس سے ہوتی ہے۔
۲۔ اُمُّ الْکِتَابِ :  جمہور علماء کے نزدیک یہ ام الکتاب بھی ہے جیسا کہ حضرت انس سے مروی ہے
 ۳۔ اُمُّ الْقُرَاٰنْ: ترمذی کی ایک صحیح حدیث میں حضرت ابوہرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔ الحمدللہ رب العٰلمین(مکمل سورت) یہ ام القران ،ام الکتاب، سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے(ترمذی : حدیث ۲۸۴۵)
۴۔ اَلشِّفَاء:  جیسا کی دارمی نے ابو سعید  سے مرفوعاً نقل کیا ہے۔’’سورۃ فاتحہ ہر زہر کی شفا ہے‘‘
۵۔ اَلرُّقْیَۃُ  : حضرت سفیان بن عیینہ ؓ کے نزدیک ہے
۶۔ اَلْکَافِیَۃُ:یحییٰ بن ابی کثیرؒ نے اسے نام دیا ہے۔ کیونکہ یہ اپنے سے ماسوا سے کفایت کرتی ہے،اور کوئی دوسری سورت اس سے کفایت نہیں کرتی۔
۷۔ سُوْرَةُ الصَّلوٰۃ ۸۔ سُوْرَةُ الْکَنز :زمحشریؒ نے کشاف میں ذکر کیا ہے کہ اسے سورہ صلٰوۃ اور سورہ کنز بھی کہتے ہیں
۹۔ سَبْعُ مَّثَانیِ: : ترمذی کی ایک صحیح حدیث میں حضرت ابوہرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔ الحمدللہ رب العٰلمین(مکمل سورت) یہ ام القران ،ام الکتاب، سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے(ترمذی : حدیث ۲۸۴۵)
اکابر علماء و صوفیہ حضرات نے اس سورت کے بہت زیادہ فضائل بیان کئے ہیں ہم صرف احادیث پر اکتفا کررہے ہیں
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس مبارک سورت کے برکات و انعامات ہم پر نازل فرمائے اور ہمارے خاتمہ ایمان پر فرمائے آمین یا  مجیب السائلین
مکمل تحریر اور تبصرے >>

Friday 29 June 2012

پورا شہر مسلمان ہوگیا


الحمدللہ رب العالمین الصلاۃ والسلام علی سید المرسلین۔
پورا شہر مسلمان ہوگیا
    حضرتِ سیِّدُنا جنیدبغدادی علیہ  رحمۃاللہ فرماتے ہیں کہ ''میں نے ایک سال حج کا عزم کیا۔جب اونٹنی پر سوار ہوا تو اس کا رُخ کعبہ کی طرف ہی تھا لیکن جب میں نے اُس کی گردن پر ہاتھ مارا تووہ قُسطُنطُنیہ(اِستنبول) کی طرف مُڑگئی ۔میں نے کئی مرتبہ اس کا رُخ موڑا مگروہ قبلہ کی طرف نہ مڑی، میں نے اپنے دل میں کہا:''اے اللہ!اس میں ضرورکوئی راز پوشیدہ ہے۔''میں نے اُس کی مرضی کے مطابق اُسے جانے دیا اوراللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کی : ''اے اللہ!اگر تو مجھے اپنے گھر نہ جانے دے تو میرے پاس اس کا کوئی حل نہیں،تمام معاملہ تیرے ہی پاس ہے ۔''فرماتے ہیں کہ اونٹنی تیزی سے چلتی ہوئی قسطنطنیہ میں داخل ہوگئی۔ جب میں شہر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ لوگ فتنہ وفساد میں مبتلاہیں۔میں نے ایک شخص سے دریافت کیا کہ اس کا سبب کیا ہے؟ تواس نے بتایا: ''بادشاہ کی بیٹی کی عقل زائل ہو گئی ہے اور لوگ کوئی ایساطبیب تلاش کر رہے ہیں جو اس کا علاج کرسکے ۔''
    میں نے دل میں کہا: ''میرے رب کی عزت کی قسم! اسی کام کے لئے میرے رب  نے مجھے اس سال حج سے روک دیا ہے۔''میں نے ان لوگوں کو بتایا:''میں طبیب ہوں۔''انہوں نے پوچھا''کیا آپ علاج کریں گے؟''میں نے کہا : ''ہاں! اِنْ شَآءَ اللہ ۔'' لوگوں نے میرا ہاتھ پکڑا اورمجھے بادشاہ کے پاس لے گئے۔ اس نے اپنی بیٹی کا علاج میرے ذمے لگا دیا۔ میں نے اللہ  سے مدد طلب کی اور کمرے میں داخل ہوگیا، میں نے وہاں لوہے کی کَھْنَک سنی اور کوئی کہنے والا کہہ رہا تھا: ''اے جنید!اونٹنی نے تجھے ہماری طرف لانے کی کتنی کوشش کی جبکہ تواسے کعبہ مشرَّفہ کی طرف پھیرتا رہا۔'' اس کلام سے میری عقل کھو گئی پھر میں اندر داخل ہوا تو ایسی لڑکی دیکھی کہ دیکھنے والوں نے اس سے زیادہ حسین لڑکی نہ دیکھی ہوگی، وہ زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی، میں نے اس سے پوچھا:'' یہ کیسی حالت ہے؟'' تواس نے جواب دیا: ''اے دلوں کے طبیب! مجھے کوئی ایسا کام بتائیے جس سے میں غم سے نجات پا جاؤں ۔'' میں نے اُسے کہا: ''لَآاِلٰہَ اِلَّااللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ  پڑھ۔'' اس نے بلند آواز سے کلمہ پڑھاتو ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کُھل گئیں۔جب اس کے باپ نے دیکھا تو کہنے لگا: ''آپ کتنے اچھے طبیب ہیں اور آپ کی دوا کتنی اچھی ہے۔ میر ا علاج بھی اِسی دوا سے کر دیجئے جس سے اس کا علاج کیا ہے ۔''
     تومیں نے کہا: ''تم بھی پڑھو: لَآاِلٰہَ اِلَّااللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ  ''پھر اس کی ماں آئی ،وہ بھی دیکھ کر بہت خوش ہوئی اوروہ بھی مسلمان ہو گئی۔ پھر اس شہر میں رہنے والے سب لوگ مسلمان ہو گئے۔ا س پر میں نے اللہ عزَّوَجَلَّ کی حمد کی اور روانگی کاارادہ کیا تو وہ لڑکی کہنے لگی: ''اے جنید! جانے کی جلدی نہ کیجئے، میں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کی ہے کہ آپ کی موجودگی میں میرا ا نتقال ہو، آپ میری نمازِ جنازہ پڑھائیں اور دفن کریں ۔''پھر اس نے کلمۂ شہادت پڑھ کر موت کا جام نوش کرلیا۔
حضرتِ سیِّدُناشعیب حریفیش رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرتِ سیِّدُناشیخ عزُّ الدین مَقْدِسی علیہ  رحمۃ اللہ الغنی کے کلام سے نقل فرمایا ہے۔

مکمل تحریر اور تبصرے >>